حرفِ آغاز

وقعت الواقعة

اے دل خموش صبر و رضا کا مقام ہے

حبیب الرحمن اعظمی

 

رونق آرائے مسند ارشاد، پیکر سنت، ترجمان شریعت اور حضرت حکیم الامت مرشد تھانوی کی بزم اصلاح و تربیت کے آخری نمونہ مجسمہٴ علم و عمل حضرت مولانا قاری ابرارالحق حقی ہردوئی طویل علالت کے بعد ۸/ربیع الثانی ۱۴۲۶ھ - ۱۷/مئی ۲۰۰۵/ کو بوقت ۸/بجے شب ملتِ اسلامیہ کو روتا بلکتا چھوڑ کر رہگرائے عالم جاودانی ہوگئے، انا اللہ و انا الیہ راجعون

اللّٰہم اغفرلہ ونوّر ضریحہ و اجزہ عنّا وعن جمیع المسلمین خیر الجزاء وارفع درجتہ فی علیین وعوّض المسلمین فیہ خیرا

حضرت مولانا، ہردوئی کی ذات والا صفات برصغیر میں یادگار سلف تھی، آپ حضرت ریحانة العصر شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی قدس سرہ کے تلمیذ رشید، زہد و استغناء کے پیکر فنا فی اللہ حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوری نور اللہ مرقدہ کے منظور نظر، اور حضرت حکیم الامت مجدد ملت شاہ اشرف علی تھانوی برّداللہ مضجعہ کے آخری خلیفہ و مجاز تھے۔ مادیت کے فروغ اور مذہب بیزاری کے اس دور میں حضرت مرحوم کی ذات مینارئہ رشد و ہدایت تھی جس سے ہر شخص اپنی طلب وچاہت کے مطابق اکتساب نور کرتا تھا اس لئے بلا ریب آپ کی وفات کا سانحہ تنہا کسی فرد، جماعت، یا ادارہ کا غم نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا غم ہے پھر اس لحاظ سے اس غم کی وسعت اور ہمہ گیر ہوجاتی ہے کہ حضرات اکابر رحمہم اللہ نے برصغیر میں علم ومعرفت اور فضل و کمال کی جو بساط بچھائی تھی وہ بڑی سرعت کے ساتھ لپٹتی جارہی ہے، اپنی تاریخ کے ماضی پر نگاہ دوڑائیں تو آپ دیکھیں گے کہ حضرت حکیم الاسلام شاہ ولی اللہ گئے تو اپنے پیچھے شاہ عبدالعزیز، شاہ عبدالقادر وغیرہ جیسے عبقری اخلاف چھوڑ گئے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے رخت سفر باندھا تو اپنے پیچھے سید احمد شہید، مولانا شاہ عبدالحئی بڈھانوی، مولانا شاہ اسماعیل شہید ، شاہ محمد اسحاق علم و فضل و جہد و عمل کا ایک کارواں چھوڑ گئے۔ حضرت حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت قطب ارشاد محدث کبیر مولانا رشید احمد گنگوہی نے علم وفضل اور حکمت و معرفت کا جو باغ لگایا تھا اس کی آبیاری کیلئے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن جیسا خلف رشید چھوڑ گئے تھے پھر حضرت شیخ الہند کی مجلس علم و فضل اور مسند جہاد وعزیمت کو حضرت محدث عصر علامہ انور شاہ کشمیری اور حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے آراستہ و پیراستہ رکھا۔ داعی کبیر حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے جاری کردہ دعوت و تذکیر کے کام کو آگے بڑھانے کیلئے امیر التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی موجود تھے، خانقاہ رائے پوری کی رونق و تازگی حضرت مولانا شاہ عبدالقادر کے دم قدم سے قائم رہی، حضرت محدث جلیل مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے جاری کردہ علمی و روحانی سلسلے کو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نے نہ صرف سنبھالے رکھا بلکہ اس کے دائرہ کو وسیع سے وسیع تر کردیا۔

خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون کے فیض کو حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی نے عروج و کمال عطا کیا، اسی روحانی سلسلے کی ایک زریں کڑی حضرت مولانا ہردوئی قدس سرہ کی باکمال شخصیت تھی، بلحاظ فیض رسانی اور افادئہ خلق کے حضرت حکیم الامت مرشدی تھانوی کے خلفاء میں ایک امتیازی مقام و مرتبہ کے مالک تھے جن کا وجود آج کے لادینی دور میں اہل دین کیلئے تسلی و اطمینان کا ایک بڑا چشمہ تھا۔ انکی وفات حسرت آیات سے ایک ایسے خلاء کا احساس ہوتا ہے جسے پُر کرنے والا بظاہر کوئی نظر نہیں آتا۔

خزاں رسید و گلستاں بآں جمال نماند          سماع بلبل شوریدہ رفت و حال نماند

نشان لالہٴ ایں باغ از کہ می پرسی             برو کہ آنچے تو دیدی بجز خیال نماند

مختصر سوانح : حضرت مولانا ہردوئی صوبہ اترپردیش میں ۲۰/دسمبر ۱۹۲۰/ مطابق ۱۳۳۹ھ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد بزرگوار محمود الحق ایڈوکیٹ دینی مزاج کے حامل اور حضرت مرشد تھانوی کے بزم اصلاح و تربیت کے رکن رکین اور مجاز صحبت تھے۔ اس لئے بیٹے کی دینی تعلیم و تربیت کا پورا خیال رکھا جس کا اثر حضرت مولانا کی زندگی پر بڑا خوشگوار پڑا کہ عہد طفلی سے مزاج دینی بن گیا، آٹھ برس کی مختصر سی مدت میں آپ حفظ قرآن کی دولتِ لازوال سے ہم کنار ہوگئے تھے، ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے ہردوئی میں مولانا انوار احمد انبیٹھوی مظاہری سے حاصل کی، آگے کی تعلیم کیلئے مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا اور نحومیردستور المبتدی وغیرہ نصاب کی کتابوں سے مظاہر علوم میں تعلیم و تحصیل کا سلسلہ شروع کیا اور ۱۳۵۷ھ میں صحاح ستہ وغیرہ پڑھ کر مروجہ نصاب کے مطابق فارغ التحصیل ہوئے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی، حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوری، حضرت مولانا عبداللطیف اور حضرت مولانا منظوراحمد خاں رحمہم اللہ آپ کے اساتذئہ حدیث ہیں۔ دورہ سے فراغت کے بعد ایک سال مزید فنون کی کتابیں پڑھیں دورئہ حدیث اور فنون دونوں کے امتحانات میں اول آئے اور بجانب مدرسہ وقیع انعامات سے سرفراز ہوئے، اس طرح انیس سال کی عمر میں مدارس اسلامیہ میں متداول علوم کی تعلیم و تحصیل آپ نے مکمل کرلی۔

تعلیم سے فراغت کے بعد آپ کا مظاہر علوم میں بحیثیت معین مدرس کے تقرر ہوگیا، جس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کے اساتذہ آپ کی علمی استعداد وصلاحیت پر مکمل اعتماد کرتے تھے، پھر حضرت تھانوی قدس سرہ کے ایماء سے جامع العلوم کانپور سے وابستہ ہوگئے اور تقریباً دو برس یہاں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں کانپور سے منتقل ہوکر مدرسہ اسلامیہ فتح پور ہنسوہ سے متعلق ہوگئے اور یہاں بھی تقریبا دوسال درس و تدریس کا سلسلہ قائم رہا۔

خدمات و کارنامے اورمصلح دین وکمالات

اشرف المدارس ہردوئی کا قیام : مختلف مدارس میں چار پانچ سال تدریسی مشغلہ کے بعد اپنے پیرومرشد حضرت حکیم الامت قدس سرہ کے مشورہ سے خود اپنے وطن ہردوئی میں ۱۳۶۲ھ میں اشرف المدارس کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا، جس نے مختصر سی مدت ہی میں آپ کے حسن انتظام اور اخلاص نیت سے اوساط علمیہ میں اپنا ایک مقام پیدا کرلیا، اور آج تعلیم و تربیت کے لحاظ سے ملک کے اہم مدارس میں اس کا شمار ہوتا ہے۔

حضرت مرشد تھانوی کی قائم کردہ دینی تنظیم

”مجلس دعوة الحق“ کی تجدید واحیاء:

حضرت اقدس مولانا تھانوی نے مسلمانوں میں اسلامی احکام واعمال کی ترویج کے لئے اپنے زمانہٴ حیات میں ”مجلس دعوة الحق“ کے نام سے ایک خالص دینی و دعوتی مجلس تشکیل فرمائی تھی، لیکن آپ کی وفات کے بعد یہ مجلس فعال نہ رہ سکی، حضرت مولانا ہردوئی نے مرشد کی اس سنت حسنہ کو زندہ کرنے کی غرض سے ۱۳۷۰ھ میں اپنے وطن ہردوئی میں دوبارہ اس کی داغ بیل ڈالی اور مجلس کو پروان چڑھانے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا اس مجلس کے واسطہ سے دعوت و تذکیر، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، نیز مکاتب کے قیام اور تجوید کی رعایت کے ساتھ حفظ قرآن کے سلسلہ میں آپ نے جو عظیم کارنامہ انجام دیا ہے یہ برصغیر کی اسلامی تعلیم کی تاریخ کا ایک ایسا زرّیں باب ہے، جس کے تذکرہ کے بغیر یہاں کی علمی تاریخ نامکمل رہے گی۔

تصنیفات و تالیفات: حضرت مولانا قدس سرہ ایک عظیم دینی مصلح اور بہترین واعظ ہونے کے ساتھ ایک اچھے مصنف و موٴلف بھی تھے، چنانچہ امت کی اصلاح کی غرض سے آپ نے درجنوں رسائل و کتابیں مرتب فرماکر شائع کیں جن میں سے بعض یہ ہیں:

اشرف الہدایات لاصلاح المنکرات، امت کی پریشانی اور انحطاط کا سبب اور اس کا علاج، اشرف النصائح، اشرف الاصلاح، اشرف النظام، اشرف الخطاب، اذکار مسنونہ، اشرف التفہیم، اصلاح الغیبت۔ نیز آپ کے افادات و ملفوظات پر مشتمل ایک گراں قدر مجموعہ مولانا حکیم محمد اختر صاحب زید مجدہ نے ”مجالس ابرار“ کے نام سے مرتب کیا ہے جو کتب خانہ مظہری ناظم آباد کراچی سے شائع ہوچکا ہے۔

ارشاد و سلوک : حضرت مولانا کی تربیت بچپن ہی سے دینی و روحانی ماحول میں ہوئی تھی آپ کے والد بزرگوار جناب محمود الحق صاحب چونکہ حضرت مولانا تھانوی قدس سرہ کے متوسلین میں سے تھے اسلئے بچپن ہی سے حضرت اقدس تھانوی سے اک گونہ ربط و انسیت تھی، چنانچہ جب تحصیل علوم کیلئے مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا تو اسی ربط و انسیت کی بناء پر بالعموم رخصت کے ایام تھانہ بھون میں حضرت تھانوی کی خدمت میں گذارتے تھے اور طالب علمی ہی کے زمانہ میں سلوک کی بہت سی منزلیں طے کرلی تھیں، جس کا اظہار ایک مرتبہ ان کے استاذ حدیث حضرت اقدس شیخ الحدیث مہاجر مدنی قدس سرہ نے سنن ابوداؤد کے درس میں ان الفاظ میں فرمایا کہ ”مولانا ابرارالحق صاحب کو اللہ پاک نے طالب علمی ہی کے زمانہ میں تعلق مع اللہ اور نسبت کی دولت عطا فرمادی تھی“ (بحوالہ علمائے مظاہر علوم سہارنپور اور ان کی علمی و تصنیفی خدمات، ج:۱، ص: ۴۸۸)

چنانچہ فراغت تعلیم کے بعد جب آپ مدرسہ اسلامیہ فتح پور ہنسوہ میں تدریسی خدمت انجام دے رہے تھے۔ حضرت حکیم الامت مرشد تھانوی متوفی ۱۳۶۲ھ نے اپنی وفات سے ایک سال قبل یعنی ۱۳۶۱ھ میں اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا، اس وقت آپ کی عمر ۲۲، ۲۳ سال کے قریب تھی، اور حکم فرمایا تھا کہ میرے بعد مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری سے ارشاد و سلوک کے مسائل میں استفادہ کرتے رہیں۔ چنانچہ درجہٴ مشیخت پر فائز ہوتے ہوئے مرشد کے حکم کے مطابق جب تک حضرت شاہ عبدالغنی پھول پوری رحمہ اللہ بقید حیات رہے ان کی خدمت میں حاضرہوکر استفادہ کرتے رہے اور ان کے ساتھ اکرام و احترام کا وہی معاملہ کرتے تھے جو ایک مرید اپنے پیر سے کرتا ہے اور حضرت پھول پوری قدس سرہ بھی مولانا کے ساتھ مخلصانہ محبت کا برتاؤ کرتے تھے۔

آج کے دور انتشار و بے رہی میں حضرت ہردوئی رحمہ اللہ کے جہد و عمل، تذکیرو تلقین اور ارشاد و ہدایت سے بیشمار لوگوں کی زندگیوں میں سدھار آگیا، کتنے بے نمازی نہ صرف فرائض پنجگانہ کے ادا کرنے والے بلکہ تہجد گذار ہوگئے، نہ جانے کتنے کلین شیپ کے چہرے مسنون داڑھی کے نور سے چمک گئے، اور نہ جانے کتنے اسلامی احکام و اعمال سے بے پروا شریعت اسلامی کے مجسمہ بن گئے۔ حضرت مولانا مرحوم کا حلقہ ارشاد و سلوک نہایت وسیع تھا، ہندوپاک، بنگلہ دیش اور یورپ و افریقہ کے لاکھوں سے متجاوز مسلمانوں کا آپ سے اصلاحی تعلق قائم تھا، جن میں سیکڑوں طالبین حق سلوک کی منزلیں طے کرکے خلافت و اجازت سے ہم کنار ہوگئے۔

سیرت و صورت : حضرت مولانا مرحوم صورت میں تو نہیں کیونکہ یہ اختیاری صفت نہیں البتہ سیرت وعادت میں اپنے پیرومرشدکے مثیل تھے، طبیعت میں بیحد نظافت تھی صفائی ستھرائی کا بطور خاص اہتمام تھا، بدن، کپڑے، بستر، مکان غرض ہر چیز میں صفائی کا خیال رکھتے تھے۔ رنگ گوراچٹا، قد مائل بہ پستی اور جسم گٹھا ہوا تھا، کپڑا عموما سفید اور اپنی استطاعت کے مطابق قیمتی استعمال کرتے تھے۔ سرپرسنتی بال، داڑھی ہلکی مگر خوبصورت اور سفید براق کے کرتے و مغلئی پائجامے میں ایسا معلوم ہوتا کہ آسمان سے کوئی فرشتہ زمین پر اتر آیا ہے۔ منکرنکیر ایسے دل آویز انداز میں کرتے تھے کہ مخاطب کو کوئی ناگواری نہیں ہوتی تھی، عام طورپر چہرے پر مسکراہٹ رقصاں رہتی تھی، وعظ و تقریر میں بھی بہت نرم اور مخلصانہ لہجہ اختیار فرماتے تھے، وعظ میں قرآن بڑی دلکش انداز میں پڑھتے تھے، موقع بہ موقع مثنوی مولانا روم کے یا اکبر الہ آبادی اور اپنے خواجہ تاش خواجہ عزیزالحسن مجذوب کے اشعار اپنے مخصوص لہجہ اور ترنم سے پڑھتے جس سے وعظ بہت موثر ہوجاتا تھا۔ غرضیکہ عصر حاضر میں حضرت مولانا اپنے اوصاف و کمالات، اور دینی واصلاحی سرگرمیوں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھے، آپ کے وصال سے علم و معرفت اور سلوک و طریقت کی ایک دنیا اجڑگئی ہے، حفاظت دین کی غیبی دستگیری کا جو سلسلہ اب تک چلا آرہا ہے حوصلے اور امید باندھنے کے لئے یہی ایک امید رہ گئی ہے ورنہ بظاہر ہر طرف سناٹا نظر آرہا ہے۔

داغ  فراق  محبت  شب  کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 89 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاول1426ہجری مطابق جون 2005ء